Monday, September 18, 2023

’’ اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ

 ابراہیم : ۷

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِِنْ تَکْفُرُوْا فَإِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَإِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرَی} [الزمر:۷] 
’’ اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں ہوتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اس کی وجہ سے تم سے خوش ہوگا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (قیامت والے دن )کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔‘‘
شرح…: شکر کا لغوی معنی ظاہر ہونا ہے مراد ہے کہ کسی کے احسان یا انعام کرنے کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا۔
شکر ان (شکر گزاری) کفران (ناشکری) کی ضد ہے۔ علماء کے ہاں شکر کا معنی ہے کہ پوشیدہ اور ظاہری طور پر نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور فرمانبرداری میں سخت کوشش و محنت کرنا۔
یہ بھی کہا گیا ہے: احسان کرنے والے کے لیے شکر کی کمی کا اعتراف کرنا۔ یہ قول بھی ہے: شکر کی حقیقت سے عاجز آجانا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے: شکر کی حقیقت احسان کرنے والے کے احسان و نعمت کا اعتراف اور اس نعمت کو اس کی فرمانبرداری میں استعمال کرنا ہے اور ناشکری یہ ہے کہ اس کے انعام کو اس کی نافرمانی میں استعمال کرنا۔ اس بات کو سمجھنے والے تھوڑے ہی ہیں کیونکہ بھلائی برائی سے بہت کم اور فرمانبرداری نافرمانی سے بہت تھوڑی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شکر سے مراد تواضع اور انکساری، نیکیوں پر محافظت ہے اور خواہشات کی مخالفت، فرمانبرداریوں کی تند ہی اور آسمانوں اور زمین کے جبار کا مراقبہ کرنا ہے۔
یہ قول بھی ہے: اپنے سے بلند کی فرمانبرداری کرکے شکر کرنا، ہم پلہ پر برابری کا سلوک کرکے اور کم درجہ والے پر احسان اور انعام کرکے شکر کرنا۔
یہ بات بھی کہی گئی ہے: شکر، احسان کی معرفت اور اس کو بیان کرنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ شکر سے راضی ہوتے ہیں اور اپنے مومن بندوں کے لیے اسے پسند فرماتے ہیں۔
شکر کے تین درجے ہیں
(۱) محبوب اشیاء کی بناء پر شکر کرنا یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اور ان کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا نیز ان اشیاء میں سے حسب ضرورت مخلوق پر خرچ کرکے احسان کرنا، ایسا کرنے سے شاکر کے لیے نعمتیں محفوظ ہوجاتی ہیں اور رب تعالیٰ مزید نعمتوں سے بھی نوازتے ہیں۔
(۲) ناپسندیدہ اشیاء پر شکر کرنا: محبوب اشیاء پر شکر کرنے کی نسبت یہ شکر بہت ہی مشکل ہے اسی وجہ سے اس کا درجہ بھی بلند و بالا ہے اور ایسا شاکر سب سے پہلے جنت کی طرف بلایا جائے گا کیونکہ اس نے ان ناپسندیدہ چیزوں کا سامنا کیا ہے جن کا سامنا اکثر لوگ ناراضی اور پریشانی کے ساتھ اور متوسط درجہ کے لوگ صبر کے ساتھ اور مخصوص لوگ خوشی سے کرتے ہیں چنانچہ اس انسان نے ان کا سامنا سب سے اعلیٰ اور ارفع چیز کے ساتھ یعنی شکر کے ساتھ کیا لہٰذا جنت میں بھی ان سب سے پہلے داخل ہوگا۔
(۳) بندہ صرف منعم (احسان کرنے والا، مراد اللہ تعالیٰ ہے) کا ہی مشاہدہ کرے اور یہ درجہ نعمت والے کو منعم کے شہود کی وجہ سے نعمت سے ہی بے خبر کردے گا۔ چنانچہ اس کا شہود منعم اور غیر منعم کو شامل نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف منعم کا ہی شہود ہی باقی رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاذْکُرُوْنِیْٓ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ o} [البقرۃ: ۱۵۲] 

 اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ ‘‘


اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o} [سباء: ۱۳]
’’ میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے تھوڑے ہی ہیں۔ ‘‘
مخلوق کو نعمت کے شکر سے جہالت اور غفلت روکتی ہے یعنی وہ نعمتوں کی معرفت سے جاہل اور غافل ہوتے ہیں لہٰذا شکر سے رک جاتے ہیں، حالانکہ شکر کا تصور تو ہوتا ہی نعمت کی معرفت کے بعد ہے، پھر اگر انہیں نعمت کی پہچان ہو بھی تو سمجھتے ہیں کہ بس زبان سے الحمد للّٰہ، الشکر للّٰہ کہنا ہی کافی ہے۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ شکر کا مطلب نعمت کو اس حکمت کے مکمل کرنے میں استعمال کرنا ہے اور وہ رب کائنات کی فرمانبرداری ہے جو مطلوب ہے۔
ان دو معرفتوں کے حصول کے باوجود شکر سے روکنے والی چیز صرف اور صرف شہوت کا غلبہ اور شیطان کا قبضہ ہے ابلیس اپنے اس قول:
{وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ} [الاعراف: ۱۷]  
’’اور تو (اے اللہ!) ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہ پائے گا۔ ‘‘ 
سے خوش ہوا ہے۔
نعمتوں سے غفلت کے کئی اسباب ہیں
(۱) اپنی جہالت کی وجہ سے لوگ اس نعمت کو نعمت ہی شمار نہیں کرتے حالانکہ اس نے تمام لوگوں کو اور بالخصوص انہیں گھیرا ہوا ہوتا ہے۔اگر کسی پر آزمائش آئے یا اللہ کی کوئی نعمت اس سے چھن جائے پھر اس آزمائش سے چھٹکارا ملے تو اس نعمت کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس پر اللہ کا شکر کرتا ہے اور یہ تو جہالت کی انتہاء ہے کہ لوگوں کا شکر اس بات پر موقوف ہے کہ ان سے نعمت چھن جانے کے بعد پھر کسی حالت میں ان پر لوٹا دی جائے۔ بعض حالتوں کی بجائے نعمت تمام حالتوں میں شکریہ کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ مثلاً آنکھوں والوں کو، صحیح بصارت کی وجہ سے اللہ کا شکر کرتے ہوں، نہیں دیکھے گا۔ ہاں! اگر اس کی بصارت چلی جائے اور پھر اسے لوٹا دی جائے تو پھر اسے اس نعمت کا احساس ہوگا اور شکر کرے گا اور اسے نعمت شمار کرے گا۔
لوگوں کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ صرف مال کی قلت اور کثرت کی حیثیت سے ہی شکر ادا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر باقی سب نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جیسے کسی انسان نے عقل مند کے سامنے اپنا فقر اور اس کی وجہ سے اپنا غم ظاہر کیا تو اس نے فقیر کو کہا: کیا تجھے پسند ہے کہ دس ہزار درہم کے بدلے تیری آنکھیں نکال لی جائیں؟ اس نے کہا: نہیں! پھر اس نے کہا: کیا دس ہزار درہم کے بدلے گونگا ہونا پسند کرتے ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر کہا: بیس ہزار کے بدلے تیرے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ لیے جائیں، اس کو پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، پھر کہا: کیا دس ہزار درہم کے بدلے تجھے پاگل بنا دیا جائے کیا اسے محبوب رکھتے ہو؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا۔ پھر عقل مند نے اسے سمجھایا: تجھے شرم و حیا نہیں آتی کہ اپنے مالک کی شکایت کرتے ہو حالانکہ پچاس ہزار کا سامان اس کا تیرے پاس موجود ہے۔
جو بھی انسان بغور اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا جو صرف چند افراد کو ہی ملی ہیں بلکہ کوئی ایسی نعمت بھی ہوگی جو صرف اسی پر کی گئی ہے اور کوئی بھی انسان اس نعمت میں شریک نہیں۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم پھٹ جاتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ ایسا کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے گئے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَا عَائِشَۃُ أَفَـلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟ ))1
’’ اے عائشہ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ ہوجاؤں؟ ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انجام سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود یہ کام کرتے تھے تو جس انسان کو علم ہی نہیں اور آگ کا حقدار بننے سے امن میں بھی نہیں تو اس کی کیا حالت ہونی چاہیے؟
حدیث نے یہ بات بھی واضح کردی کہ جیسے زبان سے شکر ادا ہوتا ہے ایسے ہی عمل سے بھی ہوسکتا ہے، 
قرآن نے فرمایا:
{إِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا o} [سبا: ۱۳]
’’ اے آل داود! اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے دین اور دنیوی نعمتوں سے تمہیں نوازا، لہٰذا شکریہ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ تم نیک اعمال بجا لاؤ۔ گویا نماز، روزہ اور ہر قسم کی عبادت جب شکر کے قائم مقام کردی جائے تو خود ہی شکر بن جاتی ہیں۔
قرآن و سنت کا ظاہر اس بات پر دال ہے کہ بدنی عمل سے شکریہ ادا کرنا زبانی عمل پر اقتصار کرنے کے علاوہ ہے۔ چنانچہ فعلی شکر ارکان (اعضاء) کا عمل اور قولی شکر زبان کا عمل ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت میں مشقت اٹھانے کا سبب جس نے پوچھا تھا اس کا گمان تھا کہ اللہ کی عبادت گناہوں کے خوف، مغفرت اور رحمت کی طلب کی وجہ سے ہوتی ہے اور جسے گناہوں کا خوف نہ ہو، مغفرت اور رحمت اس کے نام لکھ دی گئی وہ مشقت اٹھانے کا محتاج نہیں، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آگاہ فرمایا کہ عبادت کرنے کی ایک وجہ مغفرت اور نعمت کے ملنے پر شکر ادا کرنا بھی ہے۔ چنانچہ اس بناء پر شکر کی کثرت متعین ہوجاتی ہے۔ شکر کا معنی، نعمت کا اعتراف کرنا اور خدمت کے لیے کھڑا ہوجانا ہے اور جس سے یہ کام بکثرت صادر ہوا تو اس کا نام شکور رکھا گیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ مسلم في کتاب صفۃ القیامۃ، باب: إکثار الأعمال والاجتھاد في العبادۃ۔


اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّکُوْرُ o} [سباء:۱۳]
’’ اور میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘
شکور، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے، یعنی وہ ذات کہ جن لوگوں نے اس کی رضا کے لیے اعمال کیے انہیں ضائع نہیں کرتا بلکہ ثواب دوگنا اور چوگنا کردیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کسی بھی اچھے عمل کرنے والے کا اجر رائیگاں نہیں کرتے۔
فرمایا:
{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ} [ابراہیم : ۷]
’’ اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ ‘‘
یعنی میری نعمتوں کا اگر شکر کرو گے تو تم پر اپنا فضل اور بڑھا دوں گا۔
اس کے مطابق شکر کی حقیقت، منعم کے لیے نعمت کا اعتراف کرنا اور صرف اس کی فرمانبرداری میں ہی استعمال کرنا بنتی ہے۔ 
فرمایا:
{وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o} [ابراہیم:۷]
’’ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔ ‘‘
یعنی اگر تم نے میری نعمتوں کی ناشکری کی اور انہیں چھپائے رکھا اور انکار کیا تو یاد رکھنا، میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔ یہ شکل نعمت کو چھین لینے اور ناشکری کی بناء پر سخت عذاب سے دو چار کرنے سے بنتی ہے۔ چنانچہ رب کائنات نے جیسے نعمتوں کی شکر گزاری کی وجہ سے زیادہ فضل کرنے کا وعدہ کیا ایسے ہی ان کی ناشکری اور انکار کی بناء پر عذاب کا وعدہ کیا ہے۔ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔))1
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کا درجہ صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح کا ہے۔ ‘‘
دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
(( اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔))2
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کے لیے صبر کرنے والے روزہ دار کے اجر کی مثل (اجر) ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن الترمذي، رقم : ۲۰۲۱۔

2- صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۳۹۴۳۔


قرآن بتاتا ہے:
{أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o} [لقمان: ۱۲] 
’’ اور ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ شکریہ ادا کرنے کا نفع اور ثواب اسی پر واپس لوٹ آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَ نْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ o} [الروم:۴۴]
’’ اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی مذکورہ بات پر دال ہے:
(( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہٗ سَرَّآئُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہٗ ضَرَّآئُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہ۔))1
’’ مومن کا عجب حال ہے، اس کا ثواب کہیں نہیں گیا، یہ بات صرف مومن کو ہی حاصل ہے، اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو شکر کرتا ہے تو اس میں بھی ثواب ہے اور اگر نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لیے ثواب ہے۔ ‘‘
رب کائنات بندوں سے بے نیاز اور بے پروا ہے، گو تمام اہل زمین بھی ناشکری کریں اسے پھر بھی کوئی ضرر اور تنگی نہیں پہنچ سکتی کیونکہ وہ اپنے علاوہ سب سے بے پروا ہے۔ چنانچہ معبود برحق اس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں، ہم صرف اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل شکر اور ناشکروں کا انجام واضح فرمایا:
{وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا وَسَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَ o} [آل عمران: ۱۴۵]
’’ جو دنیا ہی کا ثواب چاہتا ہے تو ہم بھی اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں اور جو کوئی آخرت کا ثواب چاہنے والا ہے تو اسے ہم اس میں سے دیں گے۔ اور شکر کرنے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الزھد، باب: المومن امرہ کلہ خیر، رقم : ۷۵۰۰۔

Wednesday, September 21, 2016

اہل فلسطین کو ہماری ضرورت ہے



ان دنوں حماس اور اسرئیل کے درمیان شدید جنگی کاروائیوں کے اثرات نہ صرف فلسطینوں پر مرتب ہوئے بلکہ پوری دنیااس سے متاثر ہورہی ہے۔ خصوصا دنیا بھر کےمسلمان اسرائیلی ظلم وتشدد کے شکار مظلوم فلسطینیوں کی آہ وبکا سے بیحد پریشان ہیں ۔ فلسطین کے مسلمان آج سے نہیں 75 سالوں سے یہودیوں کے ظلم وستم سہتے آرہے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا بے چین ہونا فطری امر ہے ۔
فلسطین سے ہمارا تعلق خالص دینی اور اسلامی ہے۔ ایک طرف فلسطین کے مسلمان ہمارے دینی بھائی ہیں تو دوسری طرف اس سرزمین پر مسجد اقصی موجود ہےجو ہمارا قبلہ رہا ہے، جہاں اللہ نے محمد ﷺ کی سیر کرائی اور آپ نے انبیاء کی وہاں پر امامت فرمائی اور آپ وہاں سے اللہ کے پاس گئے یعنی آپ کا سفر معراج ہوا۔ اس جگہ کو اللہ نے بابرکت قرار دیا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اس مسجد کی زیارت کا حکم دیا ہے ۔ اس نسبت و تعلق کی وجہ سے ارض فلسطین اور اہل فسلطین ہمارے لئے دل و جان سے عزیز ہیں اور اس مبارک سرزمین پر اسرائیلی وجوداور وہاں کے باشندوں پر اسرائیلی تشدد امت مسلمہ کی آنکھوں میں کاٹوں کی طرح چبھ رہا ہے ۔بظاہر مسلمان اسرائیلی قوت کے سامنے کمتر ہیں مگر اللہ کی طرف سے یہودی کو ذلت وپسپائی مقدر ہے۔
حالات حاضرہ کے تناظر میں کچھ مسائل عوامی سطح پر قابل توضیح ہیں اور اہل علم سے پوچھے جارہے ہیں ، میں نے مناسب سمجھا کہ ان امور کی وضاحت کردوں تاکہ لوگوں کو صحیح رہنمائی مل سکے ۔

شام سے کون سا ملک مراد ہے:
اس جگہ سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ احادیث میں جو ملک شام کا ذکر ہوا ہے وہ موجودہ زمانہ میں کئی ممالک کو محیط ہے ۔ پہلی عالمی جنگ عظیم سے قبل شام ایک ہی ملک تھا مگر اب سیریا، لبنان ، فلسطین اور اردن میں بٹ گیا ہے گویا حدیث میں مذکور شام اس وقت کے چار ممالک کو شامل ہے۔

(1) دو الگ گنبد والی تصویر میں مسجد اقصی کون سی ہے؟
آپ نے انٹرنیٹ پہ دوقسم کے گنبدوں والی مسجد دیکھی ہوگی ۔ ایک گنبد جو پہاڑ پربناہوا ہے، گولڈن کلر کا ہے، اسے قبۃ الصحراء کہتے ہیں اور دوسرا گنبد جو کالے رنک کا نظر آتا ہے وہ دراصل مسجد اقصی ہے ۔ یہودی مسجد اقصی کو منہدم کرکے وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ مختلف جہات سے کوشش کررہے ہیں، فلسطین سے مسلمانوں کو مٹارہے ہیں، زمین ہڑپ رہے ہیں اور مسجد اقصی کی صورت وپہچان عام مسلمانوں کے ذہن سے مٹا رہے ہیں تاکہ اسے مسمارکرنا آسان ہو اس لئے قبۃ الصخراء کی تصاویر زیادہ سے زیادہ وائرل کرتے ہیں ۔

(2) مسجد اقصی کی کیا فضیلت ہے؟
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مسجد حرا م کے ساتھ مسجد اقصی ذکر کرکے اسے بابرکت بتایا ہے ، یہیں سے محمد ﷺ کا سفر معراج ہوا تھا۔اس مسجد کی فضیلت سے متعلق چند دلائل ذکر کرتا ہوں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴿الاسرا:1﴾
ترجمہ:پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻہے۔
مسجد حرام کے بعد دوئے زمین کی دوسری مسجد ہے جس کی تعمیر عمل میں آئی اور اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔
ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:قُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلَ؟ قالَ: المَسْجِدُ الحَرَامُ. قُلتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قالَ: ثُمَّ المَسْجِدُ الأقْصَى. قُلتُ: كَمْ كانَ بيْنَهُمَا؟ قالَ: أَرْبَعُونَ، ثُمَّ قالَ: حَيْثُما أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ، والأرْضُ لكَ مَسْجِدٌ(صحیح البخاری:3425)
ترجمہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ فرمایا کہ مسجد الحرام! میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا؟ فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ سليمانَ بنَ داودَ لمَّا بنى بيتَ المقدسِ سألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ خلالًا ثلاثةً سألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حُكمًا يصادِفُ حُكمَهُ فأوتيَهُ وسألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ مُلكًا لا ينبغي لأحدٍ من بعدِهِ فأوتيَهُ وسألَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حينَ فرغَ من بناءِ المسجدِ أن لا يأتيَهُ أحدٌ لا ينهزُهُ إلَّا الصَّلاةُ فيهِ أن يخرجَهُ من خطيئتِهِ كيومِ ولدتهُ أمُّهُ(صحیح النسائی:692)
ترجمہ:سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا إلى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، ومَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ومَسْجِدِ الأقْصَى(صحيح البخاري:1189)
ترجمہ: تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔
مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب پانچ سو نماز کے برابر ہے، یہ لوگوں میں مشہور ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے ، (دیکھیں :تمام المنۃ:292) اور ابن ماجہ میں پچاس ہزا ر کا اجر مذکور ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے (دیکھیں ، ضعیف ابن ماجہ :265)۔صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے اس میں ایک نماز کا اجر ڈھائی سو کے برابر ہے ۔
ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کے پاس آپس میں یہ بحث کررہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد افضل ہے یا کہ مسجد اقصی تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:
صَلاةٌ في مَسجدي هذا أفضَلُ مِن أربَعِ صَلواتٍ فيه، ولَنِعْمَ المُصلَّى، ولَيُوشِكَنَّ ألَّا يكونَ للرَّجلِ مِثلُ بَسْطِ فَرشِه مِنَ الأرضِ حيثَ يَرى منه بيْتَ المقدِسِ خيْرٌ له مِنَ الدُّنيا جميعًا۔
ترجمہ: میری مسجد میں ایک نماز اس میں چارنمازیں ادا کرنے سے بہتر ہے ، اورنماز ادا کرنے کے لیے وہ اچھی جگہ ہے ، اورعنقریب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا جہاں سے بیت المقدس دیکھا جائے ساری دنیا سے بہترہوگی۔
شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، (دیکھیں :صحیح الترغیب:1179)
یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ مسجد اقصی سے عمرہ کا احرام باندھنے کی فضیلت آئی ہے، وہ حدیث ضعیف ہے ، (دیکھیں ضعیف ابن ماجہ :590، 591)

(3)کیا مسجد اقصی ہمارا قبلہ اول ہے ؟
عمومی طور پر مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد حرام ہی ہے کیونکہ روئے زمین پر یہی سب سے پہلی مسجد ہے لیکن جب امت محمد ﷺ کی بات کریں گے تو اس اعتبار سے ہمارا قبلہ اول بیت المقدس قرار پاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے(مشرکوں کا قبلہ اس وقت بھی کعبہ ہی تھا) یہاں تک کہ آپ کی ہجرت ہوئی تو مدینہ میں بھی سولہ ماہ تک یہی مسلمانوں کا قبلہ رہا پھر اللہ نے مسجد حرام کو ہمارا قبلہ بنادیا ۔
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ(البقرۃ؛143)
ترجمہ:اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي وهو بمكةَ نَحْوَ بيتِ المقدسِ والكعبةُ بينَ يدَيهِ وبعدما هَاجَرَ إلى المدينةِ سِتَّةَ عَشَرَ شهرًا ثم صُرِفَ إلى الكعبةِ۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ مکہ میں بیت القدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے اس حال میں کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی سولہ ماہ تک یہی(بیت المقدس) قبلہ رہا پھر کعبہ کی طرف پھیردیا گیا۔
اسے احمد ، طبرانی اور بزار وغیرہ نے روایت کیا ہے ، اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کے رجال کو رجال الصحیح کہا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو شیخیں کی شرط پر قرار دیاہے ۔
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبلہ اول (بیت المقدس) سے کعبہ کی طرف متوجہ ہونے پر پہلی نمازوں کے بارے میں صحابہ بے چین ہوئے۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:لمَّا وُجِّهَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إلى الكَعبةِ قالوا : يا رسولَ اللَّهِ كيفَ بإخوانِنا الَّذينَ ما توا وَهُم يُصلُّونَ إلى بيتِ المقدسِ ؟ فأنزلَ اللَّهُ تعالى وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ الآيةَ(صحيح الترمذي: 2664)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وما كان الله ليضيع إيمانكم» ”اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان یعنی نماز ضائع نہ کرے گا“ (البقرہ: 143)۔

(4)مسجد اقصی کا دائرہ کیا ہے یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ مسجد اقصی کتنے حصے پر بولا جاتا ہے اور کیا اس پورے خطے میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
آپ نے بیت المقدس کا نقشہ دیکھا ہوگا ، چاروں طرف سے ایک دیوار قائم کی گئی ہے اس احاطہ میں موجود ساری زمین مسجد اقصی کا حصہ ہے جس میں قبۃ الصخراء بھی داخل ہے تاہم موجودہ زمانہ میں کالے گنبد والی مسجد کومسجد اقصی کے نام سے جانتے ہیں ۔ شیخ محمد بن صالح المنجد نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا یہ قول ذکر کرنے کے بعد کہا ہے((مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیلمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نےاس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ))۔
یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہوکرنماز پڑھتے تو اسی جگہ پرپڑھتے تھے جسے عمررضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیرکیا تھا ، اوراس اونچی جگہ ( گنبدوالی ) کے پاس نہ توعمراور نہ ہی کسی اورصحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اورنہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پرقبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمراورعثمان ، علی ، اورمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اورمروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی ۔

(5)کیا مسجد اقصی ہی بیت المقدس ہے؟
ہاں بیت المقدس کو ہی مسجد اقصی کہتے ہیں جیسے مسجد حرام کو بیت العتیق بھی کہتے ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :
لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ(صحيح البخاري:3886)
ترجمہ:جب قریش نے (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے۔
اس حدیث میں بیت المقدس کا لفظ ہے جس سے مسجد اقصی مراد ہے ۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے اللہ سے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو مکہ پر فتح نصیب کیا تو:أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ رَكْعَتَيْنِ(صحيح أبي داود:3305)ترجمہ:میں بیت المقدس میں دو رکعت ادا کروں گا۔
یہاں بھی بیت المقدس سے مسجد اقصی مراد ہے۔

(6)کیا مسجد اقصی حرم شمار کیا جائے گااور وہ تیسرا حرم ہے؟ 
مسجد حرام اور مسجد نبوی کا حرم ہونا دلائل سے ثابت ہے لیکن مسجد اقصی سے متعلق ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ بھی حرم شمار کیا جائے گا۔ تین مقدس مساجد میں سے ایک ہے جس کی طرف زیارت کرنا مشروع ہے اور اس جگہ نماز پڑھنے کی فضیلت آئی ہے جیساکہ اوپر بتایا گیا ہے ۔

(7)کیا قرآن کی آیت کی روشنی میں فلسطین کی زمین پر بنی اسرائیل کا حق نہیں ہونا چاہئے؟
جب بنی اسرائیل ایمان کی حالت میں تھے تو اللہ نے بطور انعام فلسطین کی حصہ داری عطا فرمائی مگر جب انہوں نے کفر کیا تو اس انعام سے بھی محروم کئے گئے اور ذلت و خواری کے بھی مستحق ہوئے ۔ جو اللہ کا انکار کرے اور نبیوں کا انکار کرے اللہ اسے زمین کا وارث نہیں بناتا بلکہ جو اللہ کے نیک بندے ہیں انہیں اپنی زمین کا وارث بناتا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ(الأنبياء:105)
ترجمہ:ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہونگے۔
اس لئے فلسطین پر صرف مسلمانوں کا حق ہے ۔

(8) طائفہ منصورہ شام میں ہونے سے متعلق حدیث کیا صحیح ہےجو مسند احمد میں ہے؟
میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن سے برسرے پیکار رہے گا ، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بکاڑ سکیں گے سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ کہاں ہوں گے ؟آپ نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے اردگرد اطراف میں ہوں گے۔ مسنداحمد 12494
شیخ البانی نے اسے منکر کہا ہے ، (دیکھیں،السلسلة الضعيفة:5849)
تاہم اس معنی کی دوسری روایات بھی ہیں اس لئے ایک دوسری روایت سے متعلق شیخ البانی ضعف کا اظہار کرتے ہوئے اس کے شاہد ہونے کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں (السلسلة الصحيحة:4/599 )
لیکن کیا طائفہ منصورہ شام میں ہی ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جماعت کبھی شام میں ہوگی تو کبھی دنیا کے دوسرے خطوں میں ہوگی ۔

(9)کیا انفرادی طور پر گھروں میں مرد یا عورت قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں؟
اہل فلسطین کی نصرت وحمایت اور یہودیوں کی تباہی کے لئے مسلم ممالک میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جارہاہے ، ایسے میں بعض مرد وخواتین کی طرف سے یہ پوچھا جارہاہے کہ عورت اپنے گھر میں یا اکیلا مرد قنوت نازلہ پڑھ سکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قنوت نازلہ ہماشما کے کہنے سے نہیں ادا کی جائے گی ، یہ ولی الامر یا جیدعلماء کے فتوی کی بنیاد پر قنوت نازلہ پڑھنا چاہئے ۔
نبی ﷺ نے قنوت نازلہ پنج وقتہ نمازوں میں پڑھا ہے لہذا ہمیں بھی صرف فرائض میں ہی اس کا اہتمام کرنا چاہئے ، نہ کہ سنت ، نفل یا جمعہ کی نماز میں ۔دوسری بات یہ ہے کہ منفرد کے لئے قنوت نازلہ کی دلیل نہیں ملتی ہے تاہم بعض اہل علم نے کہا ہے کہ منفرد بھی فرض نماز میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرسکتا ہے ، ان کے بقول عورت بھی اپنے گھر میں قنوت نازلہ کرسکتی ہے ۔

(10) اہل فلسطین کی نصرت کے لئے بدعی وظائف کا حکم 
پہلے سوشل میڈیا پر یہ پیغام دستیاب ہوا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے قرآن کی فلاں فلاں آیت پڑھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اسرائیل تباہ ہوجائے ، پھر کچھ دنوں کے بعد دیوبندی عالم مولاناخلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب کا وظیفہ گردش کرنے لگا ، وہ کہتے ہیں مسلمان فجر کی نماز کے بعد سورہ مزمل کی تین بار تلاوت کریں ، اسی مولانا کا خود کے ذاتی لیٹرپیڈ پہ دوسرا وظیفہ بھی لکھا ہوا نظر آیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہرنماز کے بعد اس کا معمول بنالینا چاہئے۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر(7بار)
اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم (7بار)
ان تمام وظائف کے جواب میں ہم آپ کی صحیح رہنمائی کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بلاشبہ فلسطین کے مسلمانوں کو دعا دیں مگر کسی کے کہنے سے من مانی طریقے سے کوئی وظیفہ یا مخصوص عمل نہ کریں جس کی دلیل دین نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: من أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ(صحيح البخاري:2697،صحيح مسلم:1718)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں اپنی طرف سے کوئی ایسا کام ایجادکیا جو دین میں نہیں تو وہ مردود ہے۔
آپ مشروع طریقہ پر دعا کریں ، فرض نماز کے بعد اپنی دعاؤں میں اہل فلسطین کو یاد رکھیں ، دعا کے افضل اوقات میں مظلوم کے لئے دعا کریں۔
مسنون اذکار میں جو مظلوم کے حق میں دعائیں وارد وہ پڑھیں ۔ یاد رکھیں دین میں اپنی طرف سے کوئی وظیفہ خاص کرنا، وظیفہ کی تعداد مقرر کرنا یا اس کے لئے کوئی وقت متعین کرنا بدعت ہے ، ہمیں بدعت سے دور رہنا ہے ۔

(11)یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا کیسا ہے؟
سوشل میڈیا پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات بائیکاٹ کا ٹرینڈ چل رہا ہے ایسے میں کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی مصلحت کے تئیں دشمنان اسلام کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے ۔ میکڈونل کا ایک ٹویٹ دیکھا گیاہے جس میں یہ لکھا تھا کہ ہم اسرائیلی فوجی کو فری فوڈ مہیاکریں گے ۔ اب ایسے میں میکڈونل اور اس جیسے تمام ادارے ومصنوعات کا جن سے اسرائیل کو تقویت پہنچتی ہے بائیکاٹ ہونا چاہئے تاکہ معاشی اعتبار سے اسرائیل کو نقصان پہنچے ۔ دنیا میں ہرایک سامان کا متعدد متبادل موجود ہے ہم غیریہودی متبادل مصنوعات کا استعمال کریں ۔

(12) امام مہدی اور دجال کے ظہورکا وقت ہوگیا ہے؟
اسرائیلی اقدام کے پس منظر میں کچھ صوفیت پسند لوگ امام مہدی کے ظہور کی تاریخ بھی بتلارہے ہیں ۔کسی نامعلوم بندہ نے حنفی صوفی مفتی ابولبابہ شاہ منصور کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 2024 میں امام مہدی کا ظہور ہوگا۔ ایک اور حنفی صوفی پیرذوالفقار نقشبندی نے حرم میں قسم کھاکرکہا کہ 2025 میں امام مہدی کا ظہورہوگا۔ اسی طرح حنفی صوفی مولانا سجاد نعمانی نے سورہ کہف سے مطلب نکالا ہے کہ سورۂ کہف پندرھویں پارے کے نصف سے شروع ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دجال کا خروج پندرھویں صدی کے نصف پر ہوگا۔
یہ سب فضول قیاس آرائیاں ہیں، علمائے امت کو چاہئے کہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کریں اور دین میں عقل لگانے سے پرہیز کریں ۔ جو تاریخ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے نہیں بتائی ہے اس میں اٹکل نہ لگائیں ۔

(13)فلسطینی مسلمانوں کو زکوۃ سے امداد کرنا کیسا ہے ؟
آج کل مختلف ممالک میں امدادی تنظیم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لئے خوراک کا انتظام کرکے فلسطین بھیج رہی ہے ، ایسےمیں بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اس مد میں زکوۃ کا مال لگاسکتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ ہاں فلسطینیوں کی امداد میں زکوۃ کا مال لگاسکتے ہیں ۔ زکوۃ کے علاوہ بھی صدقات وخیرات اور عطیات سے خوب خوب مدد کی جائے کیونکہ اس وقت وہ بہت زیادہ محتاج ومستحق ہیں ۔

آخری کلام 
فلسطین کے مسلمان ہمارے بھائی ہیں، ان کی تکلیف ہماری تکلیف ہے اور ان کے غم میں ہم برابر کے شریک ہیں تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قرآن نے ایک معصوم کا قتل ساری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے ایسے میں ہم حماس کے اقدام کو غلط سمجھتے ہیں ۔ آج فلسطین میں جتنے مسلمان شہید ہورہے ہیں ان سب کا ذمہ دار حماس ہے اس لئے ہمیں جذبات سے اوپر اٹھ کر اسلام کے آئینہ میں دیکھنا چاہئے کہ اسلام میں جنگ کے کیا اصول ہیں ؟ اسلام امن پسند مذہب ہے ، یہ حالت جنگ میں بھی عورت، بوڑھے، بچے ، مریض اور امن پسندوں کا قتل جائز نہیں ٹھہراتا۔
بہرکیف! اس وقت اہل فلسطین کو ہماری ضرورت ہے، ہم ان کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں، جہاں تک ہوسکے امداد فراہم کریں اور مسلم حکمرانوں کی اصل ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا کردار نبھائے اور امن مذاکرات کے ذریعہ قضیہ فلسطین کا مستقل حل نکالے ۔