Monday, September 18, 2023

’’ اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ

 ابراہیم : ۷

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِِنْ تَکْفُرُوْا فَإِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَإِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرَی} [الزمر:۷] 
’’ اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں ہوتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اس کی وجہ سے تم سے خوش ہوگا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (قیامت والے دن )کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔‘‘
شرح…: شکر کا لغوی معنی ظاہر ہونا ہے مراد ہے کہ کسی کے احسان یا انعام کرنے کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا۔
شکر ان (شکر گزاری) کفران (ناشکری) کی ضد ہے۔ علماء کے ہاں شکر کا معنی ہے کہ پوشیدہ اور ظاہری طور پر نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور فرمانبرداری میں سخت کوشش و محنت کرنا۔
یہ بھی کہا گیا ہے: احسان کرنے والے کے لیے شکر کی کمی کا اعتراف کرنا۔ یہ قول بھی ہے: شکر کی حقیقت سے عاجز آجانا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے: شکر کی حقیقت احسان کرنے والے کے احسان و نعمت کا اعتراف اور اس نعمت کو اس کی فرمانبرداری میں استعمال کرنا ہے اور ناشکری یہ ہے کہ اس کے انعام کو اس کی نافرمانی میں استعمال کرنا۔ اس بات کو سمجھنے والے تھوڑے ہی ہیں کیونکہ بھلائی برائی سے بہت کم اور فرمانبرداری نافرمانی سے بہت تھوڑی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شکر سے مراد تواضع اور انکساری، نیکیوں پر محافظت ہے اور خواہشات کی مخالفت، فرمانبرداریوں کی تند ہی اور آسمانوں اور زمین کے جبار کا مراقبہ کرنا ہے۔
یہ قول بھی ہے: اپنے سے بلند کی فرمانبرداری کرکے شکر کرنا، ہم پلہ پر برابری کا سلوک کرکے اور کم درجہ والے پر احسان اور انعام کرکے شکر کرنا۔
یہ بات بھی کہی گئی ہے: شکر، احسان کی معرفت اور اس کو بیان کرنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ شکر سے راضی ہوتے ہیں اور اپنے مومن بندوں کے لیے اسے پسند فرماتے ہیں۔
شکر کے تین درجے ہیں
(۱) محبوب اشیاء کی بناء پر شکر کرنا یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اور ان کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا نیز ان اشیاء میں سے حسب ضرورت مخلوق پر خرچ کرکے احسان کرنا، ایسا کرنے سے شاکر کے لیے نعمتیں محفوظ ہوجاتی ہیں اور رب تعالیٰ مزید نعمتوں سے بھی نوازتے ہیں۔
(۲) ناپسندیدہ اشیاء پر شکر کرنا: محبوب اشیاء پر شکر کرنے کی نسبت یہ شکر بہت ہی مشکل ہے اسی وجہ سے اس کا درجہ بھی بلند و بالا ہے اور ایسا شاکر سب سے پہلے جنت کی طرف بلایا جائے گا کیونکہ اس نے ان ناپسندیدہ چیزوں کا سامنا کیا ہے جن کا سامنا اکثر لوگ ناراضی اور پریشانی کے ساتھ اور متوسط درجہ کے لوگ صبر کے ساتھ اور مخصوص لوگ خوشی سے کرتے ہیں چنانچہ اس انسان نے ان کا سامنا سب سے اعلیٰ اور ارفع چیز کے ساتھ یعنی شکر کے ساتھ کیا لہٰذا جنت میں بھی ان سب سے پہلے داخل ہوگا۔
(۳) بندہ صرف منعم (احسان کرنے والا، مراد اللہ تعالیٰ ہے) کا ہی مشاہدہ کرے اور یہ درجہ نعمت والے کو منعم کے شہود کی وجہ سے نعمت سے ہی بے خبر کردے گا۔ چنانچہ اس کا شہود منعم اور غیر منعم کو شامل نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف منعم کا ہی شہود ہی باقی رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاذْکُرُوْنِیْٓ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ o} [البقرۃ: ۱۵۲] 

 اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ ‘‘


اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o} [سباء: ۱۳]
’’ میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے تھوڑے ہی ہیں۔ ‘‘
مخلوق کو نعمت کے شکر سے جہالت اور غفلت روکتی ہے یعنی وہ نعمتوں کی معرفت سے جاہل اور غافل ہوتے ہیں لہٰذا شکر سے رک جاتے ہیں، حالانکہ شکر کا تصور تو ہوتا ہی نعمت کی معرفت کے بعد ہے، پھر اگر انہیں نعمت کی پہچان ہو بھی تو سمجھتے ہیں کہ بس زبان سے الحمد للّٰہ، الشکر للّٰہ کہنا ہی کافی ہے۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ شکر کا مطلب نعمت کو اس حکمت کے مکمل کرنے میں استعمال کرنا ہے اور وہ رب کائنات کی فرمانبرداری ہے جو مطلوب ہے۔
ان دو معرفتوں کے حصول کے باوجود شکر سے روکنے والی چیز صرف اور صرف شہوت کا غلبہ اور شیطان کا قبضہ ہے ابلیس اپنے اس قول:
{وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ} [الاعراف: ۱۷]  
’’اور تو (اے اللہ!) ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہ پائے گا۔ ‘‘ 
سے خوش ہوا ہے۔
نعمتوں سے غفلت کے کئی اسباب ہیں
(۱) اپنی جہالت کی وجہ سے لوگ اس نعمت کو نعمت ہی شمار نہیں کرتے حالانکہ اس نے تمام لوگوں کو اور بالخصوص انہیں گھیرا ہوا ہوتا ہے۔اگر کسی پر آزمائش آئے یا اللہ کی کوئی نعمت اس سے چھن جائے پھر اس آزمائش سے چھٹکارا ملے تو اس نعمت کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس پر اللہ کا شکر کرتا ہے اور یہ تو جہالت کی انتہاء ہے کہ لوگوں کا شکر اس بات پر موقوف ہے کہ ان سے نعمت چھن جانے کے بعد پھر کسی حالت میں ان پر لوٹا دی جائے۔ بعض حالتوں کی بجائے نعمت تمام حالتوں میں شکریہ کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ مثلاً آنکھوں والوں کو، صحیح بصارت کی وجہ سے اللہ کا شکر کرتے ہوں، نہیں دیکھے گا۔ ہاں! اگر اس کی بصارت چلی جائے اور پھر اسے لوٹا دی جائے تو پھر اسے اس نعمت کا احساس ہوگا اور شکر کرے گا اور اسے نعمت شمار کرے گا۔
لوگوں کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ صرف مال کی قلت اور کثرت کی حیثیت سے ہی شکر ادا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر باقی سب نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جیسے کسی انسان نے عقل مند کے سامنے اپنا فقر اور اس کی وجہ سے اپنا غم ظاہر کیا تو اس نے فقیر کو کہا: کیا تجھے پسند ہے کہ دس ہزار درہم کے بدلے تیری آنکھیں نکال لی جائیں؟ اس نے کہا: نہیں! پھر اس نے کہا: کیا دس ہزار درہم کے بدلے گونگا ہونا پسند کرتے ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر کہا: بیس ہزار کے بدلے تیرے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ لیے جائیں، اس کو پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، پھر کہا: کیا دس ہزار درہم کے بدلے تجھے پاگل بنا دیا جائے کیا اسے محبوب رکھتے ہو؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا۔ پھر عقل مند نے اسے سمجھایا: تجھے شرم و حیا نہیں آتی کہ اپنے مالک کی شکایت کرتے ہو حالانکہ پچاس ہزار کا سامان اس کا تیرے پاس موجود ہے۔
جو بھی انسان بغور اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا جو صرف چند افراد کو ہی ملی ہیں بلکہ کوئی ایسی نعمت بھی ہوگی جو صرف اسی پر کی گئی ہے اور کوئی بھی انسان اس نعمت میں شریک نہیں۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم پھٹ جاتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ ایسا کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے گئے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَا عَائِشَۃُ أَفَـلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟ ))1
’’ اے عائشہ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ ہوجاؤں؟ ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انجام سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود یہ کام کرتے تھے تو جس انسان کو علم ہی نہیں اور آگ کا حقدار بننے سے امن میں بھی نہیں تو اس کی کیا حالت ہونی چاہیے؟
حدیث نے یہ بات بھی واضح کردی کہ جیسے زبان سے شکر ادا ہوتا ہے ایسے ہی عمل سے بھی ہوسکتا ہے، 
قرآن نے فرمایا:
{إِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا o} [سبا: ۱۳]
’’ اے آل داود! اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے دین اور دنیوی نعمتوں سے تمہیں نوازا، لہٰذا شکریہ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ تم نیک اعمال بجا لاؤ۔ گویا نماز، روزہ اور ہر قسم کی عبادت جب شکر کے قائم مقام کردی جائے تو خود ہی شکر بن جاتی ہیں۔
قرآن و سنت کا ظاہر اس بات پر دال ہے کہ بدنی عمل سے شکریہ ادا کرنا زبانی عمل پر اقتصار کرنے کے علاوہ ہے۔ چنانچہ فعلی شکر ارکان (اعضاء) کا عمل اور قولی شکر زبان کا عمل ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت میں مشقت اٹھانے کا سبب جس نے پوچھا تھا اس کا گمان تھا کہ اللہ کی عبادت گناہوں کے خوف، مغفرت اور رحمت کی طلب کی وجہ سے ہوتی ہے اور جسے گناہوں کا خوف نہ ہو، مغفرت اور رحمت اس کے نام لکھ دی گئی وہ مشقت اٹھانے کا محتاج نہیں، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آگاہ فرمایا کہ عبادت کرنے کی ایک وجہ مغفرت اور نعمت کے ملنے پر شکر ادا کرنا بھی ہے۔ چنانچہ اس بناء پر شکر کی کثرت متعین ہوجاتی ہے۔ شکر کا معنی، نعمت کا اعتراف کرنا اور خدمت کے لیے کھڑا ہوجانا ہے اور جس سے یہ کام بکثرت صادر ہوا تو اس کا نام شکور رکھا گیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ مسلم في کتاب صفۃ القیامۃ، باب: إکثار الأعمال والاجتھاد في العبادۃ۔


اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّکُوْرُ o} [سباء:۱۳]
’’ اور میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘
شکور، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے، یعنی وہ ذات کہ جن لوگوں نے اس کی رضا کے لیے اعمال کیے انہیں ضائع نہیں کرتا بلکہ ثواب دوگنا اور چوگنا کردیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کسی بھی اچھے عمل کرنے والے کا اجر رائیگاں نہیں کرتے۔
فرمایا:
{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ} [ابراہیم : ۷]
’’ اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ ‘‘
یعنی میری نعمتوں کا اگر شکر کرو گے تو تم پر اپنا فضل اور بڑھا دوں گا۔
اس کے مطابق شکر کی حقیقت، منعم کے لیے نعمت کا اعتراف کرنا اور صرف اس کی فرمانبرداری میں ہی استعمال کرنا بنتی ہے۔ 
فرمایا:
{وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o} [ابراہیم:۷]
’’ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔ ‘‘
یعنی اگر تم نے میری نعمتوں کی ناشکری کی اور انہیں چھپائے رکھا اور انکار کیا تو یاد رکھنا، میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔ یہ شکل نعمت کو چھین لینے اور ناشکری کی بناء پر سخت عذاب سے دو چار کرنے سے بنتی ہے۔ چنانچہ رب کائنات نے جیسے نعمتوں کی شکر گزاری کی وجہ سے زیادہ فضل کرنے کا وعدہ کیا ایسے ہی ان کی ناشکری اور انکار کی بناء پر عذاب کا وعدہ کیا ہے۔ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔))1
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کا درجہ صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح کا ہے۔ ‘‘
دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
(( اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔))2
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کے لیے صبر کرنے والے روزہ دار کے اجر کی مثل (اجر) ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن الترمذي، رقم : ۲۰۲۱۔

2- صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۳۹۴۳۔


قرآن بتاتا ہے:
{أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o} [لقمان: ۱۲] 
’’ اور ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ شکریہ ادا کرنے کا نفع اور ثواب اسی پر واپس لوٹ آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَ نْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ o} [الروم:۴۴]
’’ اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی مذکورہ بات پر دال ہے:
(( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہٗ سَرَّآئُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہٗ ضَرَّآئُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہ۔))1
’’ مومن کا عجب حال ہے، اس کا ثواب کہیں نہیں گیا، یہ بات صرف مومن کو ہی حاصل ہے، اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو شکر کرتا ہے تو اس میں بھی ثواب ہے اور اگر نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لیے ثواب ہے۔ ‘‘
رب کائنات بندوں سے بے نیاز اور بے پروا ہے، گو تمام اہل زمین بھی ناشکری کریں اسے پھر بھی کوئی ضرر اور تنگی نہیں پہنچ سکتی کیونکہ وہ اپنے علاوہ سب سے بے پروا ہے۔ چنانچہ معبود برحق اس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں، ہم صرف اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل شکر اور ناشکروں کا انجام واضح فرمایا:
{وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا وَسَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَ o} [آل عمران: ۱۴۵]
’’ جو دنیا ہی کا ثواب چاہتا ہے تو ہم بھی اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں اور جو کوئی آخرت کا ثواب چاہنے والا ہے تو اسے ہم اس میں سے دیں گے۔ اور شکر کرنے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الزھد، باب: المومن امرہ کلہ خیر، رقم : ۷۵۰۰۔